Wednesday, March 9, 2016

کون بیوقوف بنا رہا ہے



یورپ یا ویسٹ نے گاہک کو تحفظ دینے کے لیے ایسے رولز بنادیۓ
جس سے گاہک کو کافی فايدہ ہوا ۔ اس سلسلے کی ایک کڑی کو"کولنگ آوف پیریڈ" کہتے ہیں۔عالم اسلام اور اسلام میں ایسا تصور ہے ہی نہین۔ اب تو ایسے لگتا ہے ہر کوي لوٹ مارکے چکر میں ہے۔کچھ سال پہلے پروپرٹی کمپنی کے ایک مینیجر سے ملاقات ہوي۔اس کو میں نے گلے شکوے کۓ جو کہ تقریبا ایک سال سےٹیلیفون پر چل رہے تھے۔مسلہ یہ تھا کہ میں نے مینٹیننس ایگریمنٹ پر دستخط کۓ ہوۓ تھے ۔مینیجر کون تھا؟ کویتی؟یا مصری؟۔ہمارے پاکستانیوں کی خوشقسمتی کہ عربی بہت اچھا سمجھتے ہیں۔ اسی لیۓ تو حقارت سے "ہندی" کے نام سے پہچانتے ہیں۔ کہنے لگا ہم نے ریپر بھی نہیں کرنی اور مجھے ایگریمنٹ کے مطابق ان کے چارجز بھی دینے پٹریں گے -ایسے ہزاروں مسلم بھاي مسلمان بھايوں کو لوٹ رہے ہیں۔ ‏عدالتوں میں چلے جايں ایک کیس کو چلتے دس سال لگیں تو کیا ہو گآ؟دفتر شکایات بھی ہیں جنکا کام بس کاغذی کارواي کرناہے۔دفتر شکایات چلے جاییں تو وہ ہنستے ہیں کہ یہ آدمی ٹھیک نہیں جو شکایت کرنے آ گیا۔کہنے لگےبھاي کیوں ٹايم ضایع کرتے ہو اور کیسے مسلمان ہو پتہ نہیں ہر کام اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ایسی مذہبی بات کر دیتے ہیں کہ انسان      لا جواب ہو جاتا ہے-کوي کسی کو لوٹ لے قصورلٹنے والےکا کہ وہ کیوں لٹا اور لٹنے کے بعد لوٹنے والے سے معافی ہی نہ مانگے بلکے اسکا شکریہ بھی ادا کرے کہ خدمت کا موقع دیا
ایک بات ہیےہماری قوم اس بات پر متفق ہےکہ مسلمانوں کے اعمال خراب ہوۓ اللہ نے سزا کے طور پر برے حکمران نافذ کر دۓ۔ جعلی دواياں بناکر بیچو ملاوٹ کرو لوٹ مار کرو  یہ سب اللہ کی طرف سے ہی تو ہو رہا ہے پھر رونا دہونا کیوں بلکہ رب کا شکر ادا کرو کہ حکمران تو دۓ حکمران کے بغیر تو نہیں رکھایہ بات  تو مان لی کہ مسلمان برے حکمران بھی ہوتے ہیں نہیں تو تاریخ پڑ کر دیکھ لیں کوي بھی حکمران برا نہیں ملے گا اگر برے حکمران تھے تو وہ کافر تھے ایسی باتیں مسلمانوں کے لیے ہی گھڑی گيں  بیوقوف بنانے کے لیۓ    مسلمانوں کی لکھی ہوي جھوٹی تاریخ کو کافر ماننے والے نہیں یہ تو مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھايوں کے لیۓ لکھی ہے            

گو دنگ خر


مجھے سے کسی عربی ڈاکٹر نے کچھ پوچھا اور ساتھ ہی ہنس کر کہنے لگا "گو دنگ خر" میں نے پوچھا کیا کہا؟  کہنے لگا کچھ نہیں-میری بھی کچھ جستجو بڑھی اوراس کے با رے میں جانکاری شروع کر دی۔ ہمارے ایک عربی دوست عرب تاریخ کے ڈاکٹرہیں ان سے پوچھا کہ مجھے اس ضرب المثل کے بارے میں معلومات چاہیے۔کہنے لگے کچھ دن کے بعد بتاییں گے۔ کافی عرصہ گزر گیامیں تو بھول ہی گیا تھا ایک دن ان کا فون آگیااور مجھے ملنے کو کہا-میں اگلے دن ان سے ملاقات کے لیۓ چلا گیا- کیا انسان ہیں تاریخ کی چلتی پھرتی لایبریری ہی ہیں۔ حال احوال پوچھا اور گپ شپ بھی ہوي- اچانک کہنے لگے وہ اپ نے جو ضرب المثل کے بارے میں پوچھا تھاوہ فارسی کی ہے۔یہ اسلام کے سنہری دور کے مشاہیر کے زمانے کی ہے۔کیونکہ مسلم مشاہیر فارسی بولنےوالے تھے-جب بھی کسی کی ضرورت پڑتی سپاہی بھیج کر بلا لیتے تھے۔ بعض دفعہ تو ایسا ہوا مشاہیر نے جانے سے معضوری ظاہر کی تو ان کو زبردستی اٹھا کے لےگۓ۔ دربار میں ان سے مسايل کے حل پوچھے جاتے اور ان کو ہنس ہنس کر گو دنگے خر کہا جاتا۔ جن مشاہیر کو یہ اعزاز   حاصل ہوا ان میں بوعلی سینا،رازی، خوارزمی،ابن رشد اور منصور کے نام بھی شامل ہیں۔بعض کی تو اچھی طرح پٹاي بھی کی جاتی۔ مسلم سنہری دور کے اکثرمشاہیر حکومت سے جان بچانے کے ليے چھپتے اور بھاگتے ہی رہے