دودھ
(چترا مدگل)
دودھ گھر کے مرد پیتے ہیں۔ کیونکہ وہ مرد ہوتے ہیں۔ اس کا کام ہے – دودھ کے گرم گلاس کو احتیاط سے ان تک پہنچانا۔ پہنچاتے ہوئے وہ ہر روز دودھ کے سوندھے گلاس کو سونگھتی ہے۔ پکے دودھ کی خوشبو اسے خوش کر دیتی ہے۔ ایک روز ماں اور دادی کے گھر پر نہیں ہوتیں تو وہ چٹ – چٹ کوٹھری کھول کر دودھ کے برتن سے اپنے لئے دودھ کا گلاس بھرتی ہے اور گھوٹ بھرنے کو جیسے ہی گلاس ہونٹوں کے پاس لے جاتی ہے، گھر کے اکھڑے کواڑ بھڑاک سے کھل اٹھتے ہیں۔ اس کے ہونٹوں تک پہنچا گلاس ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور دودھ کے برتن پر جا گرتا ہے۔ مٹی کے برتن کے دو ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ کوٹھری کی گوبر لپی کچی فرش پر گلابی دودھ چاروں طرف پھیل جاتا ہے۔ قریب آئی بھونچکی سی ماں کو دیکھ کر وہ تھر تھر کانپتی شرمندگی کا اظہار کرتی معافی مانگتی سی کہتی ہے – “میں ۔۔۔ میں ۔۔۔” “دودھ پی رہی تھی کمینی؟” “ہاں ۔۔۔” “مانگ نہیں سکتی تھی؟” “مانگا تھا، تم نے کبھی دیا نہیں ۔۔۔” “نہیں دیا تو کون تجھے لٹھیت بننا ہے جو لاٹھی کو تیل پلاؤں؟” “ایک بات پوچھو ماں؟” آنسو بھیگی اس کی آواز اچانک ڈھیٹ ہو اٹھی۔ “پوچھ!” “میں پیدا ہونے والی تو دودھ اترا تھا تمہاری چھاتیوں میں؟” “ہاں ۔۔۔ خوب۔ پر ۔۔۔ پر تو کہنا کیا چاہتی ہے؟ ‘ “تو میرے حصے کا چھاتیوں کا دودھ بھی کیا تم نے گھر کے مردوں کو پلا دیا تھا؟”
بشکریہ "اردو نثر"
(چترا مدگل)
دودھ گھر کے مرد پیتے ہیں۔ کیونکہ وہ مرد ہوتے ہیں۔ اس کا کام ہے – دودھ کے گرم گلاس کو احتیاط سے ان تک پہنچانا۔ پہنچاتے ہوئے وہ ہر روز دودھ کے سوندھے گلاس کو سونگھتی ہے۔ پکے دودھ کی خوشبو اسے خوش کر دیتی ہے۔ ایک روز ماں اور دادی کے گھر پر نہیں ہوتیں تو وہ چٹ – چٹ کوٹھری کھول کر دودھ کے برتن سے اپنے لئے دودھ کا گلاس بھرتی ہے اور گھوٹ بھرنے کو جیسے ہی گلاس ہونٹوں کے پاس لے جاتی ہے، گھر کے اکھڑے کواڑ بھڑاک سے کھل اٹھتے ہیں۔ اس کے ہونٹوں تک پہنچا گلاس ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور دودھ کے برتن پر جا گرتا ہے۔ مٹی کے برتن کے دو ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ کوٹھری کی گوبر لپی کچی فرش پر گلابی دودھ چاروں طرف پھیل جاتا ہے۔ قریب آئی بھونچکی سی ماں کو دیکھ کر وہ تھر تھر کانپتی شرمندگی کا اظہار کرتی معافی مانگتی سی کہتی ہے – “میں ۔۔۔ میں ۔۔۔” “دودھ پی رہی تھی کمینی؟” “ہاں ۔۔۔” “مانگ نہیں سکتی تھی؟” “مانگا تھا، تم نے کبھی دیا نہیں ۔۔۔” “نہیں دیا تو کون تجھے لٹھیت بننا ہے جو لاٹھی کو تیل پلاؤں؟” “ایک بات پوچھو ماں؟” آنسو بھیگی اس کی آواز اچانک ڈھیٹ ہو اٹھی۔ “پوچھ!” “میں پیدا ہونے والی تو دودھ اترا تھا تمہاری چھاتیوں میں؟” “ہاں ۔۔۔ خوب۔ پر ۔۔۔ پر تو کہنا کیا چاہتی ہے؟ ‘ “تو میرے حصے کا چھاتیوں کا دودھ بھی کیا تم نے گھر کے مردوں کو پلا دیا تھا؟”
بشکریہ "اردو نثر"
No comments :
Post a Comment